بچوں کے خلاف جرائم: ایک لمحۂ فکریہ




حضرت بلھے شاہ کا شہر قصور ان دنوں سرخیوں میں ہے۔  ایک ایسا دلخراش اور لرزادینے والا واقعہ پیش آیا ہے جس نے پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ہر صاحب ضمیر کو جھنجوڑ دیا اور  سننے والے بلبلااٹھے کہ ’ایہہ بلھے شاہ دا شہر نئیں‘۔ ایک سات سالہ پھول سی بچی زینب امین جس کے والدین عمرہ کے لیے مکہ گئے ہوئے تھے اپنی خالہ کے گھر سے قرآن پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی  اورلوٹ کر نہیں آئی۔ پانچ دن کے بعد اس کی لاش اس کے گھر کے پیچھے کچرا کنڈی میں ملی۔ کسی نامعلوم درندے نے بچی کی عصمت دری کرکے اسے قتل کردیا تھا اور اس کی لاش کچرے میں پھینک دی تھی۔ یہ قصور میں ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل 2017 میں قصور ہی میں ایمان فاطمہ، لائبہ، ثنا، اسما اور نور فاطمہ نامی بچیوں کا اغوا ہوا اور ان کی لاشیں شہر کے مختلف حصوں سے برآمد ہوئیں۔ سارا پاکستان اور سوشل میڈیازینب اور اس کے جیسی سیکڑوں معصوموں کے حق میں سراپا احتجاج ہے۔ 
بچوں پر ہونے والے جرائم میں وطن عزیز ہندوستان کی تصویر بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔  پچھلے ماہ 9 دسمبر کی ایک شب قومی راجدھانی سے دو سو کلومیٹر دور واقع ہریانہ کے ضلع حصار کے قصبے اُکلانہ کا واقعہ ہے۔ ایک چھ سالہ بچی کو اس کے گھر سے اٹھالیا گیا اور آبروریزی کے بعد انتہائی بہیمانہ طریقےسے قتل کرکے گلی میں پھینک دیا گیاجس کی تفصیلات درج کرتے ہوئے ہاتھ لرزتے ہیں۔ اس کے والدین وہاں جھگی میں قریب دس بارہ سال سے رہتے آرہے تھے اور محنت مزدوری کرکے گزارا کرتے تھے۔ مذکورہ واقعہ کی رات بچی کا باپ مزدوری کے لیے گڑگاؤں گیا ہوا تھاجبکہ اس کی ماں بچی کے ساتھ سورہی تھی۔ آج بھی اپنی بیٹی کی دردناک موت کو یاد کرکے والدین  روپڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی بچی نے آخر کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کیا گیا۔ (انڈیا ٹوڈے،  10 جنوری، 2018)
ملک بھر سے بچوں پر ہونے والے جرائم کی خبروں میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے گھروں اور اسکولوں میں بھی بچے محفوظ نہیں ہیں۔ پچھلے سال گڑگاؤں کے ایک ہائی پروفائل اسکول ریان انٹرنیشنل کے باتھ روم سے سات سالہ پردیومن ٹھاکر کے قتل کا واقعہ ابھی لوگوں کی یادداشت میں تازہ ہے۔ جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے قومی بیورو این سی آر بی کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں بچوں کے خلاف جرائم میں 13 اعشاریہ 5 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ بہار میں یہ اضافہ 105 فیصد ہے، جبکہ بہار سرکار کا دعوی ہے کہ بچوں کے خلاف جرائم کےخلاف حکومت سرگرم اور عہد بستہ ہے اور اس سمت کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ 
دیگر ریاستوں کی حالت بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ 2016 میں اترپردیش میں 16079 معاملات درج کیے گئے جبکہ مدھیہ پردیش میں 13746، مہاراشٹر میں 14559، دلی میں 8178، راجستھان میں 4034 اور چھتیس گڑھ میں بچوں پر جرائم کے 4746 معاملات درج کیے گئے ہیں۔ ملک بھر میں مجموعی طور پر 106958 معاملات درج کیے گئے ہیں جن میں بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے 36022 معاملات ہیں اور ان میں 141 فیصد اضافہ دیکھا گیاہے۔(ایضاً، ص 19)



بچوں کے خلاف جرائم میں کم و بیش ہر ریاست میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ 2014 سے 2016 کے درمیان بیس فیصد کا اضافہ ہے۔ بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات میں بھی 82 فیصد اضافہ درج کیا گیا ہے۔سخت ترین قوانین کے باوجود ریاستی حکومتوں سے لے کر مرکزی حکومت تک ان جرائم کو روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ 
ماہرین کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم بڑھنے کی وجوہات میں غریبی، سرکاری بدعنوانی، اخلاقی قدروں کا دیوالیہ پن، انٹرنیٹ، موبائل فون اور اور ٹیلی وژن سرفہرست ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون عام ہونے اور ان پر آسانی سے فحش مواد کی دستیابی بھی جرائم کی ایک بڑی وجہ ہے۔  بچوں کے حقوق کے ایک سرکردہ کارکن کیلاش ستیارتھی کہتے ہیں:

 ’’معاشرے میں دو نسلیں شدید نفسیاتی اور تہذیبی فشار کے دور سے گزر رہی ہیں۔ ایک طرف تو امتناعات پر مرکوز اخلاقیات ہیں تو دوسری طرف کھلے پن اور اباحیت کی دعوت۔ اگر بچوں اور بڑوں کو اخلاقی جنسی تعلیم سے محروم رکھا جائے گا تو قدرتی طور پر ان نفسیاتی عوارض میں اضافہ ہوگا۔ گاؤں گاؤں میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے ذریعے فحاشی اور جنس زدگی کو مفت پروسا جارہاہے۔‘‘ (ایضاً، ص 20)
اگر یہ بات کوئی عام آدمی کہتا تو شاید اسے کسی بڑے میاں کی اخلاقی بڑ جان کر آسانی سے نظر انداز کردیا جاتا۔ لیکن یہ بات کیلاش ستیارتھی کہہ رہے ہیں جنھیں 2014 میں امن کا نوبیل انعام دیا چکا ہے، جن کا بچوں کے حقوق کی بازیابی نیز بچوں سے جڑے جرائم مافیا کو سمجھنے کا بیسیوں برسوں کا وسیع تجربہ ہے۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کی ہلاکت خیزی محض نئی نسلوں کو برباد نہیں کررہی ہے بلکہ اس کا راست اثر بچوں سے جڑے جرائم سے ہے۔ یہی بات کیا کم تشویش ناک ہے کہ بچوں کے استعمال سے چلنے والی پورن ویب سائٹوں کا سالانہ عالمی دھندہ 100 ارب ڈالر سے متجاوز ہوچکا ہے۔
آخر اس کا حل کیا ہو؟ کیلاش ستیارتھی کے مطابق بچوں پر ہونے والے جرائم کی روک تھام ایک ہمہ گیر جدو جہد کی متقاضی ہے جس کے لیے مختلف محاذوں پر کام کرنا ہوگا۔ ایک کام تو مقامی و سماجی حالات کا لحاظ کرتے ہوئے مختلف عمر کے بچوں کو اپنے جسم کو محفوظ رکھنے کے حقوق سے متعلق تعلیم دینی ہوگی۔ تعلیم کے ذریعے جب وہ اپنے حقوق سے باخبر ہوں گے تو جنسی زیادتی کے علاوہ اور بھی مختلف قسم کی زیادتیوں سے خود کو بچاسکیں گے۔ دوسرا اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ سماجی و مذہبی مقامات پر ان موضوعات پر اخلاقی تربیت کا نظام قائم ہو اور سنجیدہ گفتگوکا ماحول بنایا جائے۔ والدین اپنی بڑھتی عمر کے بچوں سے سلیقے سے حساس جنسی موضوعات پر بات کریں، ان کو اجنبیوں کے ساتھ ملنے کے خطروں سے باخبر کرائیں اور انھیں اخلاق باختہ مواد، انٹرنیٹ اور ٹیلی وژن کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ٹکنالوجی کے مثبت استعمال کے لیے متحرک کریں ساتھ ہی انھیں تخلیقی اور بارآور کاموں کی رغبت دلائیں۔ انھیں خالی نہ بیٹھنے دیں اور ان کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر بھی کڑی نظر رکھیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ پولیس اور پیشہ ورانہ قانونی ماہرین کو بچوں کے خلاف جرائم کے تئیں حساس بنایا جائے اور ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے۔ ستیارتھی ہر ضلع میں خصوصی عدالتوں نیز مختلف سطح کی کمیٹیوں اور کمیشن  کے قیام کے حق میں ہیں اور خواتین کمیشن کی طرز پر حقوق اطفال کے لیے ایک قومی اتھارٹی کے قیام کی بھی وکالت کرتے ہیں۔
قانون بچوں کے خلاف جرائم کو سنگین ترین جرائم تصور کرتا ہے۔ اسلام قصاص کو قوموں کے لیے حیات قرار دیتا ہے۔ تاہم قانون کو اپنا کام کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ عام شہریوں کو رپورٹ درج کرانے سے لے کر مختلف ضوابط اور قوانین کی بنیادی معلومات ہوں۔ ساتھ ہی عام لوگوں کو بھی قانون کی مدد کے لیے جرأت مندی اور حوصلے سے، مصحتوں کو بالائے طاق رکھ کر  آگے آنا ہوگا اور بچوں پر ہونے والے جرائم اور زیادتی کی رپورٹ کرنی ہوگی۔
جرائم کے ریکارڈ بولتے ہیں کہ روزانہ کتنی ہی زینب وحشی درندوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ انسانیت کا پست ترین مقام ہے۔ زینب کا مجرم اب بھی قانون کی گرفت میں نہیں آسکا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے بھرے پرے بازار سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ عام لوگ مجرم کو پکڑنے میں آگے نہیں آتے ہیں۔ اس صورت حال پر ایک عبر ت انگیز واقعہ پیش کرتا ہوں جسے فیس بک پر نعیم اکرام نے نقل کیا ہے۔ اگرچہ یہ موضوع سے راست متعلق نہیں ہے تاہم ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ ضرور کرتا ہے۔
چین میں بغاوت کامیاب ہونے کے بعد ماؤزے تنگ نے زمام اقتدار سنبھالی اور کہنہ روایات اور شاہی قوانین کے ملبے پر نئے نظام کی بنیاد رکھی۔ نئے قواعد و ضوابط کو کسی بھی نوع کی مصلحت سے آزاد قرار پائے۔ اگرچہ جرم اور مجرم کو آسمان تلے کوئی پناہ گاہ یا سہولت کار دکھائی نہ دیتا تھا مگر اس کے باوجود شر کو نکاسی کی کوئی نہ کوئی راہ مل ہی جاتی تھی۔
ایک دفعہ بیجنگ شہر کے ایک محلے میں ایک نو عمر لڑکی سے زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا اور مجرم روپوش ہو گیا۔ ماؤ تک خبر پہنچی۔ وہ خود متاثرہ لڑکی سے ملا اور اس سے پوچھا: ’’جب تم سے زیادتی کی گئی تو کیا تم مدد کے لیے چلائی تھیں ؟‘‘
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ 
ماؤ نے اس کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور نرمی سے کہا: ’’میری بچی! کیا تم اسی قوت کے ساتھ دوبارہ چلا سکتی ہو ؟‘‘
لڑکی نے کہا : ’’ہاں‘‘
ماؤ کے حکم پر گارڈ کے کچھ اہل کار نصف کلومیٹر کے دائرے میں کھڑے کر دیے گئے۔ اس کے بعد لڑکی سے کہا گیا کہ : ’’پوری قوت کے ساتھ چیخو!‘‘
لڑکی نے ایسا ہی کیا۔ ماؤ نے تمام اہل کاروں کو بلایا اور ہر ایک سے پوچھا گیا کہ لڑکی کی چیخ سنائی دی یا نہیں؟
سب نے اثبات میں جواب دیا۔
ماؤ نے اگلا حکم صادر کیا کہ نصف مربع کلومیٹر کے اس علاقے کے تمام مردوں کو گرفتار کر لیا جائے اور آدھے گھنٹے کے اندر اگر مجرم کی درست نشاندہی نہ ہو سکے تو تمام گرفتار مردوں کو گولی سے اڑا دیا جائے۔
حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور دی گئی مہلت کو ابھی بمشکل دس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مجرم کی نشاندہی ہوگئی اور اگلے بیس منٹ کے اندر اندر مجرم کو پکڑ کر ماؤ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ لڑکی نے شناخت کی۔ موقع پر فیصلہ ہوا اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں دیر نہیں کی گئی۔ 
کاش آج اگر قانون نافذ کرنے والے اسی سرعت سے کام کرتے، اور عام لوگ مصلحت اندیشی کی بنا پر مجرموں کی پشت پناہی نہ کرتے تو قصور کی معصوم زینب کو یہ روز سیاہ نہ دیکھنا پڑتا جس کے بعد اس کی آنکھیں ہی نہ کھل سکیں۔

(بشکریہ حجاب اسلامی، نئی دہلی، شمارہ فروری 2018)

عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے



عشق کو گیسوئے پیچاک سے باندھا گیا ہے
اور پھر گردشِ افلاک سے باندھا گیا ہے

فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے


پسِ سکوت، سخن کو خبر بنایا جائے
فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے

کس قدر بے اماں ہے شہرِمراد


اف یہ وحشت، یہ آگہی کا فساد
کس قدر بے اماں ہے شہرِمراد

ہندوستان میں مسلم پرسنل لا: مختصر تاریخی پس منظر



انگریزوں کی آمدسےقبل ہندوستان میں جب مسلمانوں کے ہاتھ میں ملک کا اقتدار تھا، اس وقت تمام شعبہ ہائے حیات پر اسلامی قوانین ہی کا اطلاق ہوتاتھا۔ مغلیہ دور حکومت (۱۵۲۶-۱۸۵۸) میں ملک کا قانون اسلامی شریعت تھا۔ مغلوں نے اپنے دور حکومت میں عدالتی نظام کو بخوبی منظم کیا ۔ مورخ واحد حسین  ۱؎  لکھتا ہے کہ مغلیہ دور کے نظام عدلیہ نے ہندوستان کے موجودہ نظام عدالت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ جے این سرکار کے بقول یہ نظام پورے ہندوستان کے متمدن معاشرے کو محیط تھا۔ مغل دور کے ایک معروف مؤرخ ابن الحسن نے لکھا ہے کہ سلطان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنی سلطنت میں قرآنی احکامات اور شریعت اسلامیہ کو نافذ کرے۔ چنانچہ عدالتوں میں دیوانی و فوجداری معاملات کا فیصلہ اسلام کے اصولوں پر ہوتا تھا۔ تاہم غیر مسلموں کو اپنے شادی بیاہ اور وراثت وغیرہ کے معاملات میں ان کے مذہبی یا رواجی قوانین پر عمل کرنے کی پوری آزادی تھی۔ یعنی ان کا اپنا پرسنل لا تھا اور مسلمانوں کا اپنا پرسنل لا۔ پرسنل لا سے مراد خاندانی زندگی کے وہ مسائل ہیں جن کا تعلق شادی بیاہ، طلاق، خلع، زوجین اور اولاد و والدین کے حقوق، وراثت، ہبہ وغیرہ سے ہو۔ فقہ اسلامی میں اسے ’’مناکحات‘‘ سے تعبیر کیا گیاہے جبکہ جدید قانونی اصطلاح میں اسے ’’پرسنل لا ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جدید قوانین کی دوقسمیں ہوتی ہیں: دیوانی (سِول) اور فوج داری (کرمنل) ہیں۔ فوج داری قوانین تمام ملک و الوں کےلیےیکساں ہوتے ہیں اور ان میں نسل، عقیدے یا مذہب کی بنیادپرکسی قسم کی کوئی امتیاز نہیں رکھا جاتا۔ البتہ دیوانی قوانین کاتعلق معاشرتی و تمدنی مسائل اور معاملات سےہے۔ اس کاایک حصہ پرسنل لا ہوتا ہے جس کےتحت مخصوص گروہوں کواختیارحاصل ہوتا ہے کہ خصوصاً عائلی معاملات سےمتعلق معاملات کا فیصلہ مقدمےکافیصلہ اس گروہ کے رواجی یا مذہبی قانون کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اسی کانام پرسنل لاہے۔
یہ ایک ناقابل تردید واقعہ ہے کہ ہندوستان میں اپنے پانچ سوسالہ دور اقتدار میں مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کو اپنے پرسنل لا کاپابند نہیں بنایا، بلکہ ہندواپنےمذہب کےمطابق عمل کرتےتھے اور مسلمان پنی شریعت پر۔ انگریزوں کےپونے دو سو سالہ دور حکومت میں بھی ہندوؤں کو ہندو پرسنل لا اورمسلمانوں کومسلم پرسنل لا پرعمل کرنے کا اختیار تھا۔
تاہم جب انگریزاقتدار پر قابض ہوئے تو نہ صرف انھوں نےمسلمانوں کوحکومت سےبےدخل کیا بلکہ منظم انداز میں مسلمانوں کو اپنی شریعت اورتہذیب وتمدن سےبھی محروم کردینےکی مذموم کوشش کی۔ انگریزوں کی آمد کے بعد جب رفتہ رفتہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اقتدار حاصل کرلیا اور ملک کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینا شروع کیے تو ۱۷۶۵ء میں عدالتوں کی از سر نو تنظیم کی گئی۔ اس وقت بھی انگریز جج مسلمان علما اور ماہرین قانون کی مدد سے اسلامی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کرتے رہے۔ ۱۸۶۰ کے عشرے میں مسلمانوں کےفوج داری قوانین پرحملہ ہوا۔ اس کےبعدشریعت کے قانون شہادت، قانون معاہدات، قانون بیع وشرا، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام اہم قوانین کالعدم قراردےدیےگئے۔ مسلمانوں کوصرف اپنےچندعائلی قوانین پرعمل کرنےکی اجازت رہ گئی۔ یہاں تک کہ ۱۸۶۲ء میں اسلام کے فوج داری قانون کو ختم کرکے انڈین پینل کوڈ کے نام سے نیا قانون نافذ کیا گیا، جو آج بھی اسی نام سے رائج ہے۔ البتہ نکاح، طلاق، خلع، مہر، نان و نفقہ، وراثت ہبہ وغیرہ جیسے عائلی اور شخصی نوعیت کے مسائل کی حد تک اسلامی قانون کو باقی رہنے دیا گیا۔۲؎
انگریز چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے ان کے شرعی قوانین بھی چھین لیے جائیں۔ تاہم برطانوی رائل کمیشنوں نےانتباہ دیا کہ مسلمانوں کے پرسنل لا کا ان کےدین وعقیدہ سے گہرارشتہ ہے۔ اسے ان کی روزمرہ زندگی سے الگ کر دینا اور اس میں مداخلت کا مطلب مسلمانوں کےسلگتےہوئے جذبات کوبھڑکادیناہے۔ ۱۸۵۷ کے غدر کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جس میں انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نے جذبہ جہاد کے تحت عظیم قربانیاں پیش کی تھیں۔ انگریزی حکومت مزید کسی عام بغاوت کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ چنانچہ وہ شرعی قوانین میں مداخلت سےبازرہی۔
برطانوی دور حکومت میں ۱۹۳۰ کی دہائی میں میمن برادری کی ایک مسلمان لڑکی نے وراثت کا ایک مقدمہ انگریزی عدالت میں دائر کردیا۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے بیٹی لازمی طور پر اپنے باپ کی متروکہ جائداد کی وارث ہوتی ہے۔ تاہم اس مقدمےکافیصلہ ہندورسم ورواج کے مطابق کیا گیا اور ایک مسلمان لڑکی کو باپ کی وراثت میں اس کےحق سےمحروم کردیاگیا۔  اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک صریح ظلم تھا کہ ایک عورت کو محض اس کے عورت ہونے کی وجہ سے میراث سے محروم کردیا جائے۔ تب پہلی بارعلمانےتحفظ شریعت کی آوازبلند کی اور ملک گیر تحریک چلائی۔ زبردست جدوجہد کےنتیجےمیں ۱۹۳۷میں مسلم پرسنل لا (شریعت) اطلاق ’’شریعت اپلیکیشن ایکٹ‘‘پاس ہوا۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت اورشریعت کی حفاظت کےتعلق سےپہلی کامیابی تھی۔ درحقیقت یہی وہ پہلی لہرتھی جس نےمسلمانوں کی موجودہ مسلم پرسنل لا کےدروازےتک رہنمائی کی۔
شریعت اپلیکیشن ایکٹ میں کہا گیا کہ اس کا اطلاق شادی بیاہ، فسخ نکاح، طلاق، ایلا، ظہار، لعان، خلع، نان و نفقہ، مہر، ولایت، ہبہ اور اوقاف وغیرہ کے معاملات میں جہاں فریقین مسلمان ہوں فیصلے کا قانون (rule of decision) مسلم پرسنل لا ہوگا۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے شخصی نوعیت کے معاملات میں حکومت دخیل نہیں ہوگی اور انھیں اپنے مذہب کے مطابق اپنے معاملات فیصل کروانے کی آزادی ہوگی۔ موجودہ آئین ہند میں اس ایکٹ کو باقی رہنے دیا گیا ہے۔ ۱۹۳۹ء میں جب انفساخ نکاح قانون (Dissolution of Marriage Act, 1939) کا نفاذ عمل میں آیا جس میں فقہ مالکی سے استفادہ کرتے ہوئے ان اسباب کو متعین کیا گیا تھا جن کی بنیاد پر ایک مسلمان عورت اپنے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرسکتی ہے۔ مثلاً ، اگر شوہر ۴؍ سال تک مفقود الخبرہے، یا ۲؍ سال سے نان و نفقہ نہیں دیتا، یاظلم و زیادتی کرتا ہے یا امراض خبیثہ میں مبتلا ہے وغیرہ، تو اس بنیاد پر عورت فسخ نکاح کا فرمان (decree) حاصل کرسکتی ہے۔۳؎
دستور میں پرسنل لا صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ دیگر مذاہب کے لیے بھی پرسنل لا وضع کیے گئے ہیں۔ ہندو وراثت قانون Hindu Succession Act, 1956)) ہندو، سکھ، بودھ اور جین کے لیے جائداد کی تقسیم کے معاملات کا فیصلہ کرنے لیے بنایا گیا۔ پارسی شادی و طلاق قانون ۱۹۳۶ء میں پارسیوں کو ان کے مذہبی عقیدے کے مطابق شادی بیاہ اور علیحدگی کی آزادی دی گئی ہے۔ ہندو شادی قانون ۱۹۵۵، ہندوؤں کو اپنے رسوم اور مذہبی عقائد کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بلکہ ۱۹۵۵ء میں اس قانون میں ترمیم کرکے اس میں طلاق کے ضوابط شامل کیے گئے تھے جو اس سے پہلے اس قانون کا حصہ نہیں تھے۔ ۴؎
یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام
اسے ہندوستان کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ یہاں کی سب سےبڑی اقلیت آزادی سےپہلےبھی اپنے تشخص، تہذیب و تمدن نیز اپنے دین پر عمل کرنے کے تعلق سے خطرات و اندیشے کاشکاررہی اوراسےباربارآزمائشوں میں ڈالاجاتارہا۔ اورجب ملک نے صبح آزادی میں آنکھ کھولی اس وقت بھی وطن عزیز کی یہ بڑی آبادی اپنے مستقبل کےگرد اندیشوں کی تاریک پرچھائیاں دیکھ رہی تھی۔
آزادی کے بعد وطن عزیز نے، جو مختلف مذاہب اور تہذیبوں کاگہوارہ ہے، اپنے لیے جمہوریت کوطرزحکمرانی کے طور پر منتخب کیا۔ سیکولرزم ملک کے آئین کی بنیاد ٹھہرا۔ بنیادی حقوق کے طور پر عقیدہ وضمیر کی آزادی اوراقلیتوں کےحقوق کی ضمانت دی گئی جوہندوستان جیسےتکثیری معاشرے کےلیےناگزیربھی تھا۔
دستور کے ذریعے عطا کردہ بنیادی حقوق کی رو سے اور دستور ہند میں مختلف پرسنل لا کی شمولیت سے یہ بات واضح ہے کہ تمام مذاہب اور بالخصوص اقلیتوں کو اپنے مذاہب پر عمل کرنے، مذہب کی تبلیغ کرنے اور یقینی طور پر اپنےاپنے پرسنل لا اور سول کوڈپر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ اس میں مسلم پرسنل لا بھی شامل ہے۔ معزز عدالتیں اس حق کو تسلیم کرتی رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے کرتی رہی ہیں۔ تاہم آزادی سے پہلے سے ہی ملک میں ایک مخصوص طبقہ سرگرم رہا ہے جس کی کوشش یہ ہے کہ ملک کی تمام اقلیتوں کو ایک خاص تہذیب میں ضم کردیا جائے۔ اسی طبقے کی کوششوں سے دستور کی دفعہ ۴۴ میں، جو رہنما اصولوں سے متعلق ہے، ایک شق ڈال دی گئی جو اس طرح ہے:
The State shall endeavor to secure for citizens Uniform Civil Code throughout the territory of India.
یعنی ’’ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ ہو۔ ‘‘
جب آئین ساز اسمبلی میں ریاست کے لیے رہنما اصولوں پر مبنی مسودہ ٔدستور کی دفعہ ۳۵ پر غور ہورہا تھا (یہی دفعہ بعد میں چل کر دفعہ ۴۴ بن گئی)، اس وقت مسلم ممبران پارلیمنٹ نے اس پر کئی ترمیمات پیش کی تھیں۔ مدراس کے جناب محمد اسماعیل نے ترمیم پیش کی کہ یکساں سول کوڈ کے لیے عوام کے کسی گروہ، فرقے یا طبقے کو اس بات کے لیے مجبور نہ کیا جائے کہ وہ اپنے پرسنل لا کو ترک کردے، اگر وہ ایسا کوئی قانون رکھتا ہو۔ دوسری ترمیم جناب نذیرالدین احمد نے پیش کی جس میں کہا گیا کہ ریاست نے جس فرقے کے پرسنل لا کو ضمانت دی ہے اس کے سول کوڈ کو تبدیل نہ کیا جائے ، الّا یہ کہ اس فرقے سے پیشگی منظوری حاصل کرلی جائے۔ ایک دیگر ترمیم محبوب علی بیگ صاحب بہادرنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا کہ یہ دفعہ شہریوں کے پرسنل لا کو کسی صورت متاثر نہ کرے ۔۵؎  ان ترمیمات پر گرما گرم بحثیں ہوئیں ۔ بہت سے غیر مسلم ارکان نے شریعت ایکٹ کے حوالے سے کہا کہ اس سے مسلمانوں کے خوجہ اور بوہرا طبقوں میں عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔ انگریزوں کے دور میں بعض مسلم علاقوں میں ہندو قوانین سے فیصلے کیے جانے کے نظائر بھی پیش کیے گئے اور مصر اور ترکی میں پرسنل لا ساقط کیے جانے حوالے دیے گئے۔ آخر میں ڈاکٹر امبیڈکر نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ دفعہ ۳۵ سے کچھ زیادہ ہی خائف ہیں اور انھیں یقین دہانی کروائی کہ ان پر یکساں سول کوڈ ہرگز جبراً تھوپا نہیں جائے گا اور آئندہ پارلیمنٹ یکساں سول کوڈ میں یہ اہتمام رکھے گی کہ اس کا نفاذ خالصتاً انھیں گروہوں پر ہوگا جو رضاکارانہ طور پر اسے تسلیم کرلیں :
My second observation is to give [Muslims] an assurance. [The Article] does not say that after the Code is framed, the State shall enforce it upon all citizens merely because they are citizens. It is perfectly possible that the future parliament may make a provision by way of making a beginning that the Code shall apply only to those who make a declaration that they are prepared to be bound by it, so that in the initial stage the application of the Code may be purely voluntary.…[I], therefore, submit that there is no substance in these amendments and I oppose them. ۶؎
اور اس وقت ملک کے حالات ایسے نہیں تھے کہ یکساں سول کوڈ کے خلاف کوئی تحریک چلائی جائے، اس لیے یہ دفعہ جوں کی توں باقی رہی۔ تاہم کچھ عرصے بعدمحسوس ہونے لگا کہ حکومت کے تیور اچھے نہیں ہیں اور وہ مسلمانوں کو ان کے شرعی قوانین سے محروم کرنے کے درپے ہے۔
ہر چند کہ یہ شق دستور کی دفعہ ۴۴ میں مشمولہ دیگر رہنما اصولوں کی طرح محض ایک اصول کی حیثیت رکھتی ہے، اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق دستور کی ایک اہم دفعہ (دفعہ ۲۵) سے متصادم بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو یکساں طور پر ضمیر کی آزادی حاصل ہوگی اور اپنے مذہب کو آزادانہ طور پر اختیار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا بھی حق حاصل ہوگا۔ ایک طرف دستورہند کی دفعات۲۵، ۲۹، ۳۰ میں مسلم پرسنل لاکوقانونی طورپرتسلیم کرلیاگیا، لیکن ساتھ ہی دستورکےرہنمااصول دفعہ ۴۴ کےذریعےحکومت کواس بات کابھی اختیاردیاگیاکہ وہ پورےملک کےلیےیکساں سول کوڈ کانفاذ بھی کرسکتی ہے۔ یہ گویا ایسی ننگی تلوارتھی جسے مسلمانوں کی شریعت پرمستقل طورپرلٹکادیاگیا۔
 دستورکی اسی کمزوردفعہ ۴۴ کی آڑ میں مسلم پرسنل لا پر اعتراضات کرنے اور اس کے آئینی حق کو سلب کروانے اور مسلمانوں کواکثریتی دھارےمیں ضم کرلینےکی دھمکیاں بھی دی جانےلگیں۔ دھیرےدھیرےاس صورت حال کی سنگینی میں اضافہ ہوتاگیا۔ یہاں تک کہ آئینی اداروں سےبھی ایسےاحکامات صادرہونےلگےجودستورکی روسےدی گئی مذہبی آزادی میں صریح مداخلت اوراقلیتی حقوق کوسلب کرنےوالےتھے۔ مثلاً ’’اسپیشل میرج ایکٹ‘‘کےچوردروازےسےاسلامی قانون نکاح اورقانون وراثت میں خردبردشروع کی گئی۔ ۱۹۵۰ء میں ہندو کوڈ بل پیش کرتے ہوئے مرکزی وزیر قانون مسٹرپاٹسکر نے کہا تھا کہ ہندوقوانین میں جواصلاحات کی جارہی ہیں، وہ مستقبل قریب میں ہندوستان کی تمام آبادی پر نافذ کی جائیں گی۔ پھر ۱۹۶۳ء میں مرکزی حکومت نے مسلم پرسنل لا میں ’’اصلاح‘‘ کی غرض سے ایک مستقل کمیشن قائم کردیا۔ اس اقدام نے حکومت کے منفی رویے کو واضح کردیا۔ ۱۹۷۲ء میں پارلیمنٹ میں متبنی بل (بچوں کو گود لینے سے متعلق) پارلیمنٹ میں پیش کردیاگیا۔ اس کی روسےگود لیے گئے بچے کو وہی قانونی حیثیت دی گئی جو حقیقی اولاد کو ہوتی ہے اور وہ میراث میں برابر کاشریک ٹھہرایا گیا۔ اس قانون کا اطلاق مسلمانوں پر بھی ہوتا تھا جو سراسراسلامی شریعت کےمنافی تھا۔
یہی نہیں بلکہ یکساں سول کوڈ کے حامیوں کو اس وقت بڑی شہ ملی جب ملک کے وزیر قانون مسٹر ایچ آر گوکھلے نے پارلیمنٹ میں متبنی بل پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ یکساں سول کوڈ کی تدوین کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ملتِ اسلامیہ میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔
اس پس منظر میں امارت شرعیہ بہار کے امیر شریعت مولانا سید منتﷲ رحمانیؒ نے جولائی ۱۹۶۳ء میں پٹنہ میں بہار اسٹیٹ مسلم پرسنل لا کانفرنس طلب کی۔ ملک کی دو بڑی تنظیموں (جمعیۃ علماء ہند اور جماعتِ اسلامی ہند) کے اس وقت کے سربراہان مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ اور مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی ؒکے علاوہ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ، مولانا عبدالرؤفؒ ایم، ایل، سی (ناظم جمعیۃ علماء اتر پردیش) اور منظور احسن اعجازی بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس طرح اسلامیان ہند کی یہ پہلی متحدہ و مشترکہ آواز تھی جو شریعت میں مداخلت کے نتیجے میں بلند ہوئی۔ مارچ ۱۹۷۲ء میں دیوبند میں مسلم پرسنل لا کے موضوع پر ایک کل جماعتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملت کے سرکردہ قائدین نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ ممبئی میں اس موضوع پر ایک نمائندہ کنونشن کا انعقاد کیا جائے۔ چنانچہ دسمبر ۱۹۷۲ء میں یہ تاریخ ساز نمائندہ کنونشن منعقد کیا گیا۔ تمام مکاتب فکر کے علما و دانشووراس میں شریک تھے۔ ہندوستان کی تاریخ خلافت تحریک کے بعد یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور بے مثال اجتماع تھا۔  اس اجلاس میں اتفاق رائے سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کنونشن میں تین تجاویز منظور کی گئیں: (۱) مسلم پرسنل لا مسلمانوں کے دین و مذہب کا جز ہیں، کسی پارلیمنٹ یا ریاستی مجالس قانون ساز کو ان میں ترمیم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ (۲) متبنی بل اپنی موجودہ شکل میں شریعت میں مداخلت ہے اور مسلمانوں کو اس سے مستثنی رکھا جائے۔ (۳) اس کنونشن کے ذریعے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل کی جاتی ہے جو ہمیشہ ہر فرقہ مسلم کے علما ، ماہرین شریعت، مسلم قانون داں اور ملت کے دیگر ارباب حل و عقد پر مشتمل ہوگا۔ ۷؎
۸؍ اپریل ۱۹۷۳ء کو اجلاس حیدرآباد میں بورڈ کی تشکیل عمل میں آئی۔ مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ بورڈ کے پہلے صدر اور مولانا سیدمنتﷲ رحمانی صاحبؒ بورڈ کے پہلے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ ۸؎
بورڈ کے بنیادی مقاصد میں تین باتیں شامل ہیں: (۱) مسلمانوں کو پرسنل لا کے بارے میں باشعور رکھنا، نیز پارلیمنٹ اور صوبائی مجالس قانون ساز اور عدلیہ میں زیر بحث آنے والے ایسے تمام قوانین کی تشریح پر نظر رکھنا جن کا تعلق براہ راست یا بالواسطہ مسلم پرسنل لا سے ہو۔ (۲) محمڈن لا کا جائزہ لینا اور مختلف دبستان  فقہ سے استفادہ کرتے ہوئے ، مناسب حدود میں واقعی دشواریوں کو ماہرین و علما کے باہمی مشورے سے حل کرنا۔ (۳) مسلمانوں کو عائلہ و معاشرتی زندگی کے بارے میں شرعی احکام ، حقوق و فرائض  سے واقف کرانا، اس سلسلے میں ضروری لٹریچر کی اشاعت نیز مختلف مکاتب فکر کے درمیان  اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانا۔
۱۹۸۳ء میں قاری طیب صاحبؒ کی وفات کے بعد چنئی کےاجلاس میں مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو بورڈ کادوسرا صدر منتخب کیا گیا۔ ان کے بعد ۲۰۰۰ء میں لکھنؤ اجلاس میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ بورڈ کے تیسرے صدر منتخب ہوئے۔ ان کے بعد جون ۲۰۰۲ء میں حیدرآباد اجلاس میں موجودہ صدر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا بحیثیت صدر انتخاب عمل میں آیا۔ مختلف اوقات میں، دیوبندی حلقہ سے امیر شریعت مولانا ابوالسعود احمدؒ، بریلوی مکتبہ فکر سے مولانا مفتی برہان الحق جبل پوریؒ، مولانا مظفر حسین کچھوچھویؒ، مولانامحمد محمدالحسینیؒ (سجادہ نشیں گلبرگہ شریف) ، شیعہ مکتبہ فکر سے مولانا کلب عابد مجتہد، اہل حدیث حلقہ سےمولانا ڈاکٹر عبد الحفیظ سلفیؒ، مولانا مختار احمد ندویؒ، جماعت اسلامی سے مولاناابواللیث اصلاحی ندویؒ، مولانا محمدیوسف صاحبؒ اور مولانا سراج الحسن صاحب بورڈ کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ اس وقت مولانا محمد سالم قاسمی، مولانا سید شاہ فخر الدین اشرف، مولانا کلب صادق (لکھنؤ) مولانا سیدجلال الدین عمری اورمولانا کاکا سعید احمد عمری نائب صدر ہیں ۔ ۹؎
مصادر
۱.  حسین، واحد، Administration of Justice During the Muslim Rule in India ۱۹۳۴۔ طبع ثانی  ۱۹۸۶۔ نئی دہلی، ص ۱۰۳-۱۰۹
۲.  پیرزادہ، شمس ، مسلم پرسنل لا اور یکساں سول کوڈ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ۲۰۱۴، ص۷۔
۳.  ایضاً۔ ص ۸۔
۴.  انڈین ایکسپریس، ویب سائٹ http://indianexpress.com/article/research/shariat-muslim-personal-law-sharia-history-shayara-bano-shah-bano-triple-talaq-personal-laws-religious-laws-uniform-civil-code-2784081/
۵.  پارلیمنٹ آف انڈیا،  ویب سائٹ۔  http://parliamentofindia.nic.in/ls/debates/vol7p11.htm
۶.  ایضاً
۷.   آل اندیا مسلم پرسنل لا بورڈ خدمات و سرگرمیاں، ناشر آ انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، نئی دہلی، ۲۰۱۰۔
۸.  بصیرت آن لائن، ویب سائٹ۔ http://www.baseeratonline.com/40715.php
۹.  ایضاً